Saturday 20 February 2016

ریٹھا ’’ بندق ‘‘ ریک ماہی ‘ سمک رمل ریباس ’’ ریوند چینی کا پودا ‘‘

Copy Rights @DMAC 2016
 www.sayhat.net
ریٹھا’’بندق‘‘
(Soap Nutt)

لاطینی میں ۔
Sapindus Trifoloiatus
 خاندان۔
Sapindaceae
دیگرنام۔
عربی فارسی اور ہندی میں بندق گجراتی میں اریٹھا سنسکرت میں ارشنا سندھی میں آرمیٹھو اور انگریز ی میں سوپ نٹ اس کے علاوہ رتہ اور رٹھٹھرابھی کہتے ہیں۔
ماہیت۔
اس کا درخت پندرہ سے پچیس فٹ بلند ہوتاہے۔ اس کی چھال نیلاہٹ لئے ہوئے بھوری ہوتی ہے۔جس پر کھردرے عارضی چھلکے سے ہوتے ہیں اور وہ موسم خزاں میں خود بخود اتر جاتے ہیں پتے پانچ انچ سے ایک فٹ تک لمبے یعنی لمبوترے سے ہوتے ہیں ۔پھول چھوٹے چھوٹے لمبوترے سبزی مائل سفید رنگ کے ہوتے ہیں ۔جن کے اوپر بال سے ہوتے ہیں پنکھڑیوں پر رواں نہیں ہوتا ۔
پھل گچھوں کی شکل میں گول گول جھری دار جن کا رنگ سرخی مائل بھورا ساہوتاہے۔توڑنے پر اندرسے کنول گٹے کے مشابہ سیاہ رنگ کی گٹھلی نکلتی ہے۔جو انتہائی سخت ہوتی ہے۔جس کو توڑنے سے سفید مغز برآمد ہوتاہے۔
ریٹھا کے پھل کا چھلکا درخت کی چھال اور مغز ریٹھا بطور دواًمستعمل ہیں ۔
مقام پیدائش۔
جموں کانگڑہ نینی تال بنگال دکن وغیرہ۔
مزاج۔
گرم خشک درجہ دوم۔
افعال (بیرونی)۔
جالی لاذع جاذب مدرحیض معطش مخرج جنین و مشمیہ ۔
افعال اندرونی ۔
مقوی معدہ کاسرریاح مقئی مصفیٰ خون مخرش معدہ و آمعاء مسہل تریاق مار گزیدہ ۔
استعمال بیرونی ۔
ریٹھے کو پیس کر برص بہق اور کلف جیسے امراض جلدیہ پر طلاء کرتے ہیں ۔چہرے کے رنگ کو نکھارنے کے ابٹنوں میں ملا کر استعمال کرتے ہیں ۔خنازیر پر سرکہ میں پیس کر ضماد کرتے ہیں ۔لقوہ شقیقہ صرع اور درد سر کے ازالے کیلئے پانی میں پیس کر سعوط کرانے سے چھینکیں آتی ہیں یا بغیر چھینکوں کے ناک میں خراش ہوکر رطوبت بکثرت بہتی ہے۔جس سے مرض کو آرام ہوجاتاہے۔
احتباس حیض کو زائل کرنے اور مردہ جنین و مثمیہ کو خارج کرنے کیلئے پانی میں پیس کر فر زجہ بناکر اندام نہانی میں رکھتے ہیں ۔جالی ہونے کیوجہ سے شب کوری اور ظلمت بصر نظر کی کمزوری کیلئے پانی گھس کر لگاتے ہیں ۔ 
لاذع و محلل ہونے کی وجہ سے اورام صلبہ و خنازیر پر ضماد کیاجاتاہے۔جس کی وجہ سے ورم پھوٹ یا تحلیل ہوجاتے ہیں ۔خناق میں باریک شدہ ریٹھہ کا سفوف پانی میں حل کرکے غرغرے کرانے سے فائدہ ہوتاہے۔
تریاق۔
مارگزیدہ عقرب گزیدہ ہونے کی وجہ سے ریٹھا کو بقدر تین سے چھ گرام باریک پیس کر پانی میں ملاکر دو ۔دو گھنٹے کے بعد اس وقت تک پلاتے رہیں ۔جب تک مریض یہ نہ کہے کہ دوائی کڑوی ہے۔اس عمل سے اسہال آکر زہر خارج ہوجائے گا۔بہتر یہ ہے کہ کاٹے ہوئے مقام پر ریٹھا کو پانی میں گھس کر ضماد کریں ۔
کہاوت ۔
ریٹھے کا سفوف پانی میں حل کرکے مکان میں چھڑکنے سے سانپ بھاگ جاتے ہیں ۔خفیف مقدار میں کھلانے سے امراض باردہ کو فائدہ بخشتا ہے۔معدہ اور ہاضمہ کو قوی کرتاہے۔پٹھوں کو قوت دیتاہے۔مصفیٰ خون ہونے کی وجہ سے اس کے چھلکے کو باریک پیس کر دانہ مونگ کے برابر گولیاں بناکر دودھ گھی سے استعمال کرنے سے آتشک جذام خارش اور جلدی بیماریاں دور ہوجاتی ہیں ۔
زیادہ مقدارکھانے سے قے اور دست لاتاہے۔اس کاسفوف قے لاکر بلغم کو خارج کرتاہے۔جس کی وجہ سے بلغمی کھانسی اور دمہ میں مریض کو سکون ہوتاہے۔
اس کی چھال یا پھل کے چھلکے سے کپڑے دھوئے جاتے ہیں ۔اسکی چھال سے پنجاب کی عورتیں دانت صاف کرتی ہیں ۔
ریٹھے کی گٹھلی کا مغز قوت باہ کیلئے مستعمل ہیں ۔اور یہ بواسیر کیلئے بھی مفید ہیں ۔
نفع خاص۔
امراض جلد ،دفع ،سمیت مارو،عقرب،
مضر۔
گرم امزجہ کیلئے ۔
مصلح۔
روغنیات خصوصاًروغن بادام کیلئے۔
مقدارخوراک۔
ایک سے دو گرام تک۔

Copy Rights @DMAC 2016
 www.sayhat.net
ریباس ’’ریوند چینی کا پودا ‘‘
Rhubarb
 دیگرنام۔
عربی میں ریباس فارسی میں دیواس یا ریواج اور انگریزی میں رہو بارب کہتے ہیں ۔
ماہیت۔
ایک پودا ہے جولگ بھگ تین چار فٹ اونچا ہوتاہے۔اس کی ڈنڈی دو انگل چوڑی اور موٹی ایک انگل کے برابر ہوتی ہے۔اس کے تنے پر بہت سی شاخیں ہوتی ہیں ۔جن پر چھ انچ کے لگ بھگ دو فٹ تک پتے کٹے پھٹے کناروں والے ہوتے ہیں ۔پھول تقریباًآدھ پون انچ بیگنی رنگ کے جن کے اندر چپٹے بھورے رنگ کے بیج بھرے ہوتے ہیں ۔جڑلمبی گول ٹکڑے مخروطی ،بے ڈول ،شکل اور مٹیالے سے رنگ کی ہوتی ہے۔یہ توڑنے سے ٹیڑھی توٹتی ہے۔اس کا ذائقہ کسیلا اور قدرے تلخ بدبودار ہوتاہے۔اگر اس کو چبایا جائے تو تھوک زرد ہوجاتاہے۔ریباس کی جڑ کو ریوند چینی کہتے ہیں ۔ریوند چین کا بیان آگے ہے۔
ریباس کے پتے سبز سرخ ذائقہ ترش اور قدرے شیریں ہوتاہے۔
مقام پیدائش۔
جہاں برف پڑتی ہے یاسردی شدید ہوتی ہے۔وہاں ریباس پیدا ہوتی ہے۔شملہ آسام اور نیپال میں بوئی جاتی ہیں ۔
مزاج۔
مرکب القوی ۔
افعال و استعمال۔
صفراء کو توڑتی اور لطافت پیداکرتی ہے۔مقوی معدہ و جگر ہونے کی وجہ سے بھوک بڑھاتی ہے۔گرم مزاجوں کو قوت دیتی ہے۔وسواس اور خفقان میں نافع ہے ۔یورپ میں اس کو بطور خوراک استعمال کیاجاتاہے۔
مقدارخوراک۔
بقداربرداشت۔

Copy Rights @DMAC 2016
 www.sayhat.net
ریگ ماہی ‘سمک رمل
(Sand Lizard)
لاطینی میں ۔
Lacerta Agilis
دیگرنام۔
فارسی اور اردو میں ریت کی مچھلی عربی میں سمکتہ الصیدا،انگریزی میں سینڈ لیزرڈجبکہ یونانی میں سفیقس کہتے ہیں ۔
ماہیت۔
بہت چھوٹی مچھلی جوکہ تقریباًایک انگلی کے برابرہوتی ہے۔عموماًریت میں پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے ریگ ماہی مشہور ہے اور گرگٹ کی طرح سفید چمکدار اور جلد پر خوبصورت نشان ہوتے ہیں ۔ریت میں دس بارہ گزتک گھس جاتی ہے۔یہ سندھ اور مارواڑ میں عموماًجبکہ رحیم یارخان کے ریگستان میں عام ہوتی ہے۔
بعض اطباء کا خیال ہے کہ ریگ ماہی کی ایک قسم ریت میں ہوتی ہے۔اور دوسری قسم پانی کے کنارے ہوتی ہے۔اور دریائے نیل کے کنارے عموماًملتی ہے اس کو سقنقور کہاجاتاہے۔
مزاج۔
گرم وخشک درجہ دوم بعض کے نزدیک درجہ چہارم ۔
افعال و استعمال۔
اس کو عموماًمقوی باہ ادویات میں شامل کرتے ہیں ۔اگر اس کا طلا بناکر قضب پرلگایاجائے تو اس میں سختی اور فرہبی پیدا کرتی ہے۔
مقدارخوراک۔
ایک سے تین گرام یاماشے ۔
مشہور مرکب۔
معجون ریگ ماہی معجون مقوی علوی خان والی معجون ثعلب ۔وغیرہ۔

No comments:

Post a Comment