Monday 22 February 2016

ستونا۔ ستیاناسی. سجی ’’ لوٹاسجی ‘‘

Copy Rights @DMAC 2016 
 www.sayhat.net
ستونا۔
(Alstonia Scholaris)

دیگرنام۔
بنگالی میں چھاتن یا چتون ،سنسکرت میں شیت پرن ،نیپالی میں چاتی دان،ہندی میں ستون یا چھتی ون ،مرہٹی میں ستونایاسانون ،انگریزی میں ڈیٹابارک اور لاطینی میں السٹونیاسکویرس کہتے ہیں۔
ماہیت۔
یہ سدا بہاردرخت تقریباًساٹھ فٹ اونچا ہوتاہے۔اس کی چھال کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ہوتے ہیں ۔ہر ایک ٹکڑا درمیان سے کھوکھلا ہوتاہے۔اور اس کی ساخت اسفنجی ہوتی ہے۔اس میں کسی قسم کی بو نہیں ہوتی ۔پتے سنبل کے پتوں کی طرح ہوتے ہیں اور ایک ایک شاخ میں سات سات پتے ہوتے ہیں۔اس درخت کولمبی لمبی پھلیاں جوڑوں کو شکل میں لگتی ہیں ۔
پھول پھاگن فروری میں لگتے ہیں جیٹھ مئی میں پھل آتاہے۔اس کی خشک چھال دوا میں کام آتی ہے۔چھال کی بیرونی سطح کھردری خاکستری رنگ کی ہوتی ہے۔لیکن اندرونی سطح کا رنگ ہلکا بادامی ہوتاہے۔اس کا ذائقہ تلخ ہوتاہے۔
مقام پیدائش۔
یہ درخت پاکستان میں صوبہ سرحد مشرقی بنگال میں اورجنوبی ہندوستان کے خشک جنگلوں میں تین ہزار فٹ کی بلندی پرخودرو ہوتاہے۔

اس کے تازہ پتوں کی پلٹس گندے اور سڑندار زخموں پرلگانے سے زخم صاف ہوجاتاہے۔اس کے پتوں کا رس ادرک کے رس میں ملاکر عورتوں کو ایام زچگی میں پلانے سے رحم کی آلائش بہت جلد خارج ہوجاتی ہے۔اس کی چھال قابض مقوی اور دافع بخارتاثر رکھتی ہے۔اسہال مزمن حمی نزلی یعنی نزلہ کی وجہ سے بخار میں نافع ثابت ہوتی ہے۔حب آمعاء کی خرابی کے ساتھ موسمی بخار کی شکایت ہوتو اس کا خیساندہ پلاتے ہیں ۔تقویت ہضم کیلئے پیپل کا سفوف اور بخار کے بعد کی کمزوری اتیس کا سفوف اس خیساندہ میں چھڑک کردیتے ہیں۔
مقدارخوراک۔
چھال ایک تولہ چھال کا رب چمچہ خردقدرے پانی ملاکر۔

Copy Rights @DMAC 2016 
 www.sayhat.net
ستیاناسی
(Yellow Thistie)

دیگرنام۔
عربی مین شجر الثوم فارسی بادنجان دشتی ،بنگالی میں سورن چھیری ہندی میں اجڑ کانٹا جبکہ انگریزی میں ییلوتھسٹل کہتے ہیں۔
ماہیت۔
یہ خودرو پودا دو فٹ سے سواگز تک اونچا ہوتاہے۔کھیتوں میں پیداہوکر انہیں اجاڑ دیتاہے۔اس لئے اجڑ کانٹا یاستیاناسی کہتے ہیں۔پتے بینگن کے پتوں سے مشابہ مگر کانٹوں سے بھرپور پھول نازک اور ملائم لالہ کی مانند ماہ فروری و مارچ میں لگتاہے۔جس میں ایک چار خانہ ڈوڈھ چھوٹے سیاہ گول بیجوں سے بھرا ہوا ہوتاہے۔سوکھ کر ڈوڈا پھٹ جاتاہے۔تو بیج زمین پرگرپڑتے ہیں ان بیجوں کوآگ پرڈالا جائے تو پٹاخوں کی طرح تڑ ختے ہیں۔شاخ توڑنے پر زرد رنگ کا لیسدار اور بدبودار دودھ نکلتاہے۔اس کی جڑ کٹھ کے ہم شکل ہوتی ہے۔اسے چوک کہتے ہیں ۔ذائقہ تلخ ہوتاہے۔
نوٹ۔
بعض لوگ اس کو برھم ڈنڈی کہتے ہیں لیکن برھم ڈنڈی جداچیز ہے۔
مقام پیدائش۔
پاکستان اور ہندوستان میں ہرجگہ سوکھے جوہڑوں کھنڈرات اور کھیتوں میں بکثرت ہوتی ہے۔اس پودے کا اصل وطن میکسیکو ہے۔انگریزی میں اس کو میکسی کن پوبی کہتے ہیں۔
مزاج۔
سرد۔
افعال۔
مسہل و مقئی ،قاتل کرم شکم ،دافع فساد بلغم و خون ،
استعمال۔
استسقاء کے مریض کو نمک سانبھر میں سیتاناسی کے بیجوں کاتیل چند بوندیں ڈال کرکھانے سے بہت فائدہ ہوتاہے۔سات بوند پتاشہ میں ڈال کر دودھ کے ہمراہ کھلانے سے بے خوابی کی شکایت دور ہوجاتی ہے۔ستیاناسی کی جڑ عرق لیموں یاپانی میں گھس کر بواسیری مسوں پرلگانے سے درد کو فوراًآرام آجاتاہے اور چند روز تک یہ عمل جاری رکھیں تو مسے گر جاتے ہیں یا مرجھاجاتے ہیں جڑ کو باریک پیس کرمغلی پھوڑے پر چھڑک دیں اور اس کے اوپر کسی مرہم کا پھایا لگا دیں ۔اگلے روز پھایا اتر کر نیم کے جوشاندہ سے زخم کو دھوکر صاف کریں اور پھریہ عمل دو یا تین بار کرنا کافی ہے۔پھرروئی کی گدی گھی میں ترکرکے زخم پر رکھیں ۔توچند یوم میں زخم بالکل درست ہوجائے گا۔
ستیاناسی جڑ کا چھلکا دس گرام مرچ سیاہ پانچ عدد نصف سیر پانی میں گھوٹ کر شہد خالص چالیس گرام میں ملاکر پینا پھوڑے پھنسی خارش چنبل برص اور آتشک کے لئے مفیدہے۔ستیاناسی کی بیجوں کاتیل تین چار بوند پتاشہ میں ڈال کر کھلائیں ۔اور اوپر سے پانی پلائیں توہر قسم کے کرم شکم ہلاک کرتاہے۔
سیتاناسی کے پتوں کے عرق اور نگدہ میں شنگرف ہڑتال پارہ سیسہ اور چاندی سب کشتہ ہوجائے گا۔
مقدارخوراک۔
سبز پتے اور شاخیں پچاس گرام تک تخم چار سے نو گرام ماشے ۔
بیجوں کا تیل تین سے سات بوند ۔
بطورمسہل پندرہ سے تیس بوند تک۔
جڑ کی چھال چار گرام سے ایک تولہ

 دودھ تین سے پانچ بوند تک۔
Copy Rights @DMAC 2016 
 www.sayhat.net
سجی’’لوٹاسجی ‘‘
(Barilla)

لاطینی میں۔
Sodium Carbonate)
دیگرنام۔
فارسی میں اشخار،عربی میں نظرون،بنگلہ میں ساجی کھار،ساج مائی،گجراتی میں ساجی کھار،سنسکرت میں سورچکا اور انگریزی میں بیرا کہتے ہیں۔
ماہیت۔
سوڈیم کو دوسرانام نیڑم ہے جو عربی لفظ نطرون سے مشتق ہے سجی حقیقت میں کثیف کاربونیٹ آف سوڈیم ہے لوٹاسجی تھوڑی صاف ہوتی ہے۔یہ خاص طور پر بوٹیوں کو جلابنائی جاتی ہے۔خاص کر اشنان بوٹی،لنگن کھار یہ کھاری ااور تیز ہوتی ہے۔بہتر وہ ہے جو صاف سیاہ براق ہو سجی گلابی رنگ کی بھی ہوتی ہے۔اس کو لوٹن سجی بھی کہتے ہیں ۔اس کا مزہ شور اور نہایت تیز ہوتاہے۔
مزاج۔
گرم خشک درجہ چہارم۔
افعال۔
خفیف مقدار میں ہاضم منفث بلغم ،محلل ورم طحال مشہتی دافع درد چوٹ ،مدربول مسکن درد گردہ شدید اکال جالی ۔
زیادہ مقدار میں معدہ اور آنتوں کو زخمی کرکے ہلاک کردیتی ہے۔

مسوں پر لیپ کرنے سے ان کو گرا دیتی ہے۔اور برص بہق ترخارش و گنج پرطلاء کرتے ہیں ۔ورم طحال کیلئے مفید لیپ ہے۔شدید جالی اور اکال ہونے کی وجہ سے گوشت کھاجاتی ہے۔اگر سرے کے ہمراہ کھرل کرکے بطور سرمہ آنکھوں میں ڈالا جائے تو آنکھ کا جالا کاٹ دیتی ہے۔اگر چوٹ کی وجہ سے ورم اور درد ہوتو اس کا لیپ مفیدہے۔
معدہ و آنتوں کو تقویت دینے ہاضمہ درست کرنے کیلئے چورنوں میں شامل کی جاتی ہے۔اور کھانسی دمہ میں بلغم کو خارج کرتی ہے۔اس کوتھوڑا مقدارمیں دیگرادویہ کے ہمراہ استعمال مدربول مسکن درد گردہ ہے۔
سمی اثرات یا زہریلی علامات۔
سجی کو زیادہ مقدار میں کھانے سے منہ اور حلق میں جلن درد شیدید ہوتاہے۔قے او دست آنے لگتے ہیں ۔اور شدید ضعف کی وجہ سے مریض ہلاک ہو جاتاہے۔
سمی اثرات کا علاج۔
اگرسجی غلطی سے زیادہ مقدار میں کھالی جائے تو انبویہ معدی سے معدہ کو دھوئیں یا صر ف گرم پانی زیادہ مقدار میں پلا کر قے کرائیں ۔اس کے بعد انڈوں کی سفید ی پانی میں پھینٹ کر پلائیں ۔
نفع خاص۔
مقوی معدہ ہاضم طعام ۔
مضر۔
ورم حلق و سوزش معدہ پیدا کرتی ہے۔
مصلح۔
گھی دودھ اور روغنیات۔وغیرہ۔
مقدارخوراک۔
دو سے تین رتی تک۔
مہلک مقدار۔
دو یا تین ماشہ سے زیادہ مہلک ہے۔

No comments:

Post a Comment