Monday 15 February 2016

دوب ’’ دب ‘‘ دودھی ’’ ہزاردانی ‘‘ دودھ

Copy Rights @DMAC 2016 
 www.sayhat.net
دوب’’دب‘‘
(Couch Grass)

دیگرنام۔
عربی میں عشب فارسی میں مرغ بنگالی میں دربہ پنجابی دب تامل میں اردگوتلنگو گوبکی سندھی میں چھبر ڈبھ اور انگریزی میں کاؤچ گراس کہتے ہیں ۔
ماہیت۔
سخت پتی والا مشہور گھاس ہے ۔ننگے پاؤں اس کے اوپر سے گزریں توپتیاں پاؤں میں چبھ جاتی ہیں اس کا رنگ سبز سفید ی مائل ذائقہ قدرے تلخ و کسیلا ہوتاہے۔اس گھاس کو گھوڑے بڑی رغبت سے کھاتے ہیں ۔
مقام پیدائش۔
ویران جگہ کے علاوہ قبرستانوں دریااور جھیل کے کنارئے پایاجاتاہے۔
مزاج۔
معتدل مائل بہ سردی ۔
افعال۔
مسکن حرارت محلل قابض حابس الدم ،دافع فساد بلغم و صفراء ،مدربول ۔
استعمال۔
گرمی کے ورموں کوتحلیل کرتی ہے۔پیشانی پر اس کا لیپ نکسیر کو بند کرتاہے۔اس کے جوشاندہ سے غرغرے کرانامنہ آنے کو نافع ہیں روغن کنجد میں جلاکر سائیدہ کرکے گرمی دانوں پر ملنا مفید ہے۔اس کوتنہا پیس کر گرم ورموں سرخ بار اور پتی کے زائل کرنے کیلئے لگاتے ہیں ۔چاول اور ہلدی کے ہمراہ روغن چنبیلی میں پیس کر چیچک کے کھرنڈ جلد اتارنے کیلئے ضماد کرتے ہیں ۔تنہا پیس کر جمرہ پر لگانا بہت مفید ہے۔ڈوب میں ایک قسم کی تریاقیت پائی جاتی ہے۔خوانی بواسیر اور بول الدم سوزش بول میں مثل بھنگ پیس کر دودھ ملا کردیتے ہیں ۔مارگزیدہ اور مریض ہیضہ کو چند عددمرچ سیاہ کے ہمراہ پیس کر پلاتے ہیں ۔
نفع خاص۔
محلل اورام ،دافع زہر۔
مضر۔
سر اور معدہ کیلئے ۔
مصلح۔
محلل اورام ،دافع زہر ۔
بدل۔
دھنیے کی پتی ۔
مقدارخوراک ۔
سات ماشہ سے ایک تولہ تک۔
Copy Rights @DMAC 2016 
 www.sayhat.net
دودھی’’ہزاردانی‘‘
(Euphorbia Hirta)

دیگرنام۔
عربی میں سوسفند فارسی میں شیرک گجراتی میں دودہلی بنگالی میں دوہیا ،سندھی میں کھرل بوٹی اور انگریزی میں یوفوربیا ہزٹاکہتے ہیں ۔
ماہیت۔
ایک شیر دار بوٹی ہے۔جس کے پتے اور شاخوں کو توڑنے سے دودھ نکلتاہے۔یہ تین قسم کی ہوتی ہے۔
1۔ہزاردانی یادودھی خرد۔
یہ زمین پر مفردش ہوتی ہے۔اس کے پتے بیضوی چھوٹے سرخ سبزی مائل شاخیں باریک نرم و نازک ہر ایک حصہ کی رنگت تانبا جیسی ہوتی ہے۔اس لئے اس کو تانبا شیری بوٹی کہتے ہیں ۔یہی زیادہ تر بطور دوا مستعمل ہے۔
2۔دودھی کلان یا قاضی دستاریادودہک چھتری ۔
اس کا پودا ایک بالشت یا اس سے کچھ زیادہ اونچا ہوتاہے۔اس کے پتے پہلی قسم سےبڑے میتھی کے مشابہ ہوتے ہیں ۔اور شاخیں سبزرنگ کی ہوتی ہیں ۔
3۔مینڈھادودھی یا مینڈھاسینگی ۔
یہ دودھی کی تیسری قسم ہے۔اس کاالگ بیان کیاجائے گا۔۔
مقام پیدائش۔
یہ بوٹی پاکستان اورہندوستان کے تقریباًًگرم علاقوں خصوصاًًجنوبی پنجاب چھانگا مانگا کے علاوہ سخت اور پتھریلی زمین میں موسم بہار موسم برسات میں بکثرت پیدا ہوتی ہیں ۔
مزاج۔
گرم وخشک درجہ دوم ۔
افعال۔
محرک اعصاب قابض آمعاء ومنی ،اندرونی جریان خون مسکن مصفیٰ خون ،تریاق زہر مجاری بول پر قابض و مسکن ۔
استعمال۔
دودھی خرد کو پانی میں پیس چھان کر دستوں کو بند کرنے کیلئے پلاتے ہیں ۔مرض سوزاک میں سوزش کو تسکین دینے اور مودا کو بند کرنے کیلئے سفوف بناکر کھلاتے ہیں ۔جریان خون کے علاوہ استحاضہ خون بواسیر میں دیتے ہیں ۔جریان سیلان الرحم اور رقت و سرعت کو زائل کرنے کیلئے استعمال کرتے ہیں ۔مصفیٰ خون ہونے کی وجہ سے اورام و ثبور کو دفع کرنے کیلئے پلاتے ہیں ۔جو فساد خون کی وجہ سے جسم پر نکل آتے ہیں ۔
دودھی بقدرایک تولہ کو چند عدد مرچ سیاہ کے ہمراہ پانی میں پیس کر پکانا مارگزیدہ کے لئے مفید بیان کیاجاتاہے۔اس میں دو تولہ شہد ملانے سے زیادہ مفید ہوجاتاہے۔دودھی کے نغدہ میں چاندی اور قلعی کا عمدہ کشتہ تیار ہوتاہے۔جو جریان اور رقت منی میں مستعمل ہے۔
وئید دودھی کلاں کا امراض تنفس مثلاًنزلہ کھانسی اور دمہ کے علاج میں بھی استعمال کرتے ہیں ۔ایک ماہر علم نباتات نے اس کا ٹنکچر پندرہ سے بیس منم کی خوراک میں ضیق النفس اور سعال مزمن میں نہایت مفید پایا جاتاہے۔
نفع خاص۔
سوزاک اور جریان مفید۔
مضر۔
ریہ کیلئے ۔
بدل ۔
ایک قسم دوسری قسم کی بدل۔
مقدارخوراک۔
پانچ سے سات گرام یا ماشے ۔
Copy Rights @DMAC 2016 
 www.sayhat.net
دودھ ۔
(MilK)

دودھ کو عربی میں لبن فارسی میں شیر سندھی اور سرائیکی میں کھیر جبکہ انگریزی میں ملک کہتے ہیں ۔
دودھ لطیف ،زودہضم ،ایک مکمل اورمتوازن غذا ہے۔کیونکہ اس میں وہ تمام اجزاء موجود ہوتے ہیں جو ہماری پرورش کیلئے ضروری ہیں ۔اس کا ثبوت اس سے ملتاہے۔کہ بچے کے پیدا ہونے کے بعد سب سے پیلے جو غذادی جاتی ہے۔وہ ماں کا دودھ ہوتی ہے۔بچے کو چار ماہ صرف دودھ ہی پلانا چاہیے ۔ایک بالغ آدمی روزانہ چار کلو دودھ پی کر پوری غذائیت حاصل کر سکتاہے۔دودھ خاص طور پر مریضوں کیلئے تو بہت ہی عمدہ اور سفید غذا ہے۔ماں کے دودھ میں پروٹین چکنائی اور نمکیات کم ہوتے ہیں ۔جبکہ کیلشیم شکر اور حیاتین دوسرے جانوروں کے مقابلے میں زیادہ ہوتے ہیں ۔لیکن ان کی خاصیت میں فرق ہوتاہے۔دوسرے حیوانوں کے دودھ کی پروٹین ثقیل ہوتی ہے۔جو دیر ہضم بھی ہے۔یہ بھاری پن بکری کے دودھ میں اگر کم اور بھینس کے دودھ میں سب سے زیادہ پائی جاتی ہے۔بھینس کے تازہ دودھ کا رنگ سفید اور گائے کا زردی مائل ہوتاہے۔جس کی رنگ بھوری ہووہ کریم نکلاہوا دودھ ہوتاہے۔اور دودھ کے تما م اجزاء پانی میں تقریباًحل ہوجاتے ہیں ۔البتہ چکنائی کے ذرات اس میں تیرتے رہتے ہیں ۔اگر کسی برتن میں کچھ دیر کیلئے دودھ کورہنے دیاجائے تو اس پر کریم کی ایک تہہ جم جاتی ہے۔جسے آسانی سے الگ کیاجاسکتاہے۔کریم نکالے ہوئے دودھ کے اجزاء تودہی ہیں جو عام دودھ کے ہوتے ہیں لیکن اس میں چکنائی کم ہوتی ہے۔جن لوگوں کو خالص دودھ نہ مل سکے وہ اپنی غذا میں اس دودھ کو استعمال کرسکتے ہیں ۔جبکہ چکنائی کم ہوتی ہے۔جبکہ چکنائی کی کمی کو کسی اور طریقہ سے پورا کیاجاسکتاہے۔دودھ کیونکہ ایک اعلیٰ درجہ کی مقوی غذا ہے لیے اس میں مختلف قسم کے جراثیم بہت جلد اور بکثرت پرورش پاتے ہیں ۔مثلاًًہیضہ تپ محرقہ پیچش وغیرہ ۔
تازہ دودھ کو اگر گرم نہ کیاجائے توچند گھنٹوں میں خراب ہوجاتاہے۔یا جم جاتاہے۔دودھ کو اگر دومنٹ تک ابال لیاجائے اور اسے ڈھک کر ٹھنڈی جگہ رکھ دیاجائے تو یہ کافی دہر تک خراب نہیں ہوتا۔
یونانی اطباء مالخولیا کے مریضوں کو ماء الجین استعمال کراتے ہیں وقت ایسی جوان بکری کا دودھ استعمال کرتے تھے ۔جس کا رنگ سرخ یا سیاہ ہو اور دو بچوں سے زائد نہ جنے ہوں نیز تین چار مہینے سے زائد اورچالیس روز کم کابچہ نہ رکھتی ہو۔اس دوران بکری کو صرف کاسنی برگ کشنیز وغیرہ سرد سبزیاں کھلاتے ہیں ۔
نوٹ۔
ایک اونس دودھ سےبیس کلوریز حاصل ہوتی ہے۔

No comments:

Post a Comment