Tuesday 9 February 2016

چمپا ’’ چنپہ رابیل ‘‘ چمک پتھر ‘ مقناطیس یا مقناطیس ۔ چنار

Copy Rights @DMAC 2016 
 www.sayhat.net
چمپا’’چنپہ رابیل‘‘
لاطینی میں۔
(Michelia Champaca)
دیگرنام۔
عربی میں فاغروہندی میں چمپا ،بنگال میں چمپا یا چمپکامرہٹی میں ساپو تیلگو میں سم پنگی بوؤد سنسکرت میں چمپکا کہتے ہیں۔
ماہیت۔
مشہورچھوٹاساسدا بہارپوداہےجس کے پھول خوشبو دار ہوتے ہیں۔اس کا پھول پیلا یا نارنجی رنگ کا چھال خاکستری رنگ کی نصف انچ موٹی ہوتی ہے۔چھال کے اندر کی لکڑی سفید ہوتی ہے۔پھول کا ذائقہ پھیکا جبکہ چھال تلخ ہوتی ہے۔
مقام پیدائش۔
پہاڑوں میں کاشت کی جاتی ہے۔اور ہمالیہ کے معتدل علاقوں مالوہ نیپال بنگال آسام اور برما کے علاوہ کوچین جاوا میں بکثرت پایاجاتاہے۔
مزاج۔
گرم خشک بدرجہ دوم لیکن وئید اس کے پھولوں کی تاثیرسردتر قرار دیتے ہیں۔
استعمال۔
ہندوان پھولوں کا دیوتاؤں کو چڑھاوا دیتے ہیں۔پھولوں کو سونگھنا قلب کو قوت دیتا ہے۔پھولوں سے عطر کشید کیاجاتاہے۔اس کی چھال کا سفوف دافع نوبتی بخار ہے۔اس کی نازک و نرم کو نپلوں کو کچل کر پانی میں رکھتے ہیں۔اور اس پانی کو تقویت بصارت کے لئے آنکھوں میں ڈالتے ہیں۔
اس غرض کیلئے چمپا کلیاں بھی سرمہ میں شامل کی جاتی ہیں۔اس کی جڑ کو پیس کر دہی میں ملا کر پھوڑوں پر لگاتے ہیں۔
مقدارخوراک۔
چھال پانچ سے پندرہ رتی تک۔
Copy Rights @DMAC 2016 
 www.sayhat.net
چمک پتھر‘مقناطیس یامقناطیس ۔
(Load Stone)
دیگرنام۔
عربی میں بیطس یا حجر الحدید فارسی میں سنگ آہن ربایا حجر مقناطیس اور ہندی میں چمک پتھر جبکہ انگریزی میں لوڈسٹون کہتے ہیں۔
ماہیت۔
ایک قسم کا پتھرہے جو لوہے کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔اگر قوت ناقص ہوگئی ہو تو سرکہ سے دھو ڈالیں قوت بحال ہوجائے گی ۔ان کا رنگ سیاہ مائل بہ سرخ اور ذائقہ بدمزہ ہوتاہے۔
مقام پیدائش۔
ہندوستان میں کوہ گوالیار۔
افعال۔
جاذب آہن،جالی ،منفی،قابض،مجفف،قاطع،نزف الدم۔
استعمال۔
مقناطیس جاذب آہن ہے۔لہٰذاجس کسی شخص کو برادہ آہن کھلایاگیاہویاکسی کے شکم میں خبث الحدید حبس  ہوگیاہو تو اس کو مقناطیس کھلاتے ہیں ۔یہ ان کو جذب کرتاہے۔اور اپنے اخراج کے ساتھ ان کو خارج کرتاہے۔قابض ہونے کی وجہ کی وجہ سے دیگر قابض ادویہ کے ہمراہ حبس اسہال کےلئے استعمال کرتے ہیں ۔نزف الدم ہونے کی وجہ سے جراحت سے سیلان خون کو روکتاہے۔باریک پسا ہوا چٹکی بھر زخم پر چھڑکنے سے خون بند کردیتاہے۔اور زخم کو صاف کرکے بھر لاتاہے۔ریشمی کپڑے میں رکھ کر بائیں ران باندھنا بالخاصہ زچگی میں جلدی اور آسانی پیداکرتاہے۔
نفع خاص۔
حابس الدم ،اور قابض ۔
مضر۔
گرم مزاجوں کےلئے ۔
مصلح۔
دودھ اور روغن کو۔
مقدارخوراک۔
ایک گرام ۔
نوٹ۔
آج کل مقناطیس کے مثبت اورمنفی ٹکڑوں سے مختلف امراض کے علاج کیاجاتاہے۔جس کو میگنیٹوتھرابی کہتے ہیں ۔
چنا’’نخود‘‘
Gram
دیگرنام۔
عربی میں حمص،فارسی میں نخود،گجراتی میں چینا،مرہٹی میں ہرے بھرے،سندھی میں بھوگڑی،بنگالی میں چھوٹاٹٹ،پنجابی میں چھولے اور انگریزی میں گرام کہتے ہیں ۔
مزاج۔
ایک مشہور دانہ کاغلہ ہے۔اس کارنگ سرخ و زرد اور ذائقہ پھیکا و سوندھا ہوتاہے۔اگر اس کو پیس لیاجائے تو یہ بیسن کہلاتاہے۔چھلکا اتار کر اس کورگڑلیاجائے تو چنے کی دال کہلاتی ہے۔چنے اور دال کو پکاکر بطور نانخورش استعمال کرتے ہیں ۔
مقام پیدائش۔
پاکستان میں بکثرت پنجاب اور سندھ میں ہندوستان میں پنجاب کے علاوہ یوپی میں ۔
مزاج۔
سبز چنا گرم تر درجہ اول۔خشک چنا ،گرم خشک درجہ اول بارطوبت فضیلہ۔
استعمال۔
چنے کا آٹا بناکر روٹی پکاتے ہیں اسے بیسنی روٹی کہتے ہیں۔اس کے علاوہ دوسرے طریقوں سے بھی کھایاجاتا ہے۔چنے سے بنائی ہوئی غزائیں لذیز ہوتی ہے۔علاوہ ازیں غذائیت بخشنے کے لحاظ سے چنا گہیوں سے دوسرے درجہ پر ہے لیکن چنا نفاخ اور ثقیل ہے ۔نعوظ پیداکرتا ہے۔لہذا ضعف باہ کے مریضوں میں اس کے آٹے کا حلوا بنا کر دیتے ہیں۔یہ خلط صالح پیدا کرتاہے۔بدن کوفربہ کرتاہے۔
چنے کےخیساندہ کو شہد سے شیریں کرکے آواز کو صاف کرنے کے علاوہ ادرار بول و حیض کیلئے پلاتے ہیں۔مدربول ہونے کی وجہ سے مرض سوزاک میں آردنخود بیسن کے خیساندہ کو باربار پلانے سے پیشاب بکثرت آکر مجرائے بول صاف ہوجاتاہے۔
بدن چہرے کا رنگ نکھارنے اور خارش و خشک تر زائل کرنے کے لئے بیسن حنامساوی حصہ کا ابٹن بناکر بدن پر ملتے ہیں۔
احتیاط ۔
چنے سے بنائی ہوئی غزائیں بکثرت کھانے سے مثانہ کی پتھری بن جانے کا احتمال ہوتاہے۔
وئید اس کا کھار بد ہضمی درد شکم اور قبض میں بکثر ت استعمال ہیں۔
کھار بنانے کی ترکیب۔
چنے کے پودوں پر صبح کے وقت ایک سفید چادر بچھادی جاتی ہے۔ جو کہ ان پر پڑی ہوئی اوس کو جذب کر لیتی ہے پھر چادر بچھا کر یہی عمل اکیس بار کیا جاتاہے۔بعد ازاں چادر کو پانی میں دھو کر پانی آگ پر خشک کر لیاجاتاہے۔جو چیز باقی رہ جاتی ہے۔وہی کھار ہے۔
نفع خاص۔
مقوی باہ مدربول۔
بدل۔
لوبیا اور نرمس۔
مصلح۔
خشخاش زیرہ سویا اور گلقند ۔
مضر۔
دیر ہضم ہے۔
مقدارخوراک۔
بقدرہضم۔
چناکھار ایک سے تین گرام۔
Copy Rights @DMAC 2016 
 www.sayhat.net
چنار۔
لاطینی میں۔
(Platamus Orientalis)
دیگرنام۔
عربی میں دلب فارسی میں چنار سندھی میں چیل کہتے ہیں۔
ماہیت۔
چنار درخت ہے جس کے پتے ارنڈ کے پتوں کی مانند لیکن ان سے چھوٹے ہوتے ہیں۔پھول چھوٹا سازرد رنگ کا ہوتا ہے۔پھل زرد رنگ کے مٹیالے سے یا سرخی گول گول اور خانہ دار ہوتے ہیں۔اس درخت کے پتوں کا مزہ تلخ اور کیسلا ہوتاہے۔پتے پھل اور چھال بطور دواء استعمال ہوتے ہیں۔
مزاج۔
سردوخشک ۔
افعال ۔
جالی قابض مسکن درد مجفف قروح ۔
استعمال۔
برگ چنارکو اورام بلغمی اور اورام مفاصل پر باریک پیس کر ضماد کرتے ہیں۔اور اسکے پوست کوجلا کر گندے اورمتعفن زخموں پر چھڑکتے ہیں نیز برص تقشر جلد اور قروع ساعیہ پر طلا کرتے ہیں۔خشک پتوں کو باریک پیس کر ذرورد کرنا بھی زخموں کو خشک کیلئے نافع ہے تازہ پتوں کا ضماد زخموں کو بھرنے کیلئے مفیدہے۔پوست چنار سرکہ میں پکا کر درد دندان کو تسکین دینے اور مسوڑھوں کے گرم ورموں کو زائل کرنے کیلئے بہترہے۔اس کے پھول اور پھل کو باریک پیس کر ہلاس لینے سے نکسیر بند ہوجاتی ہے۔
نفع خاص۔
محلل اورام اور مجفف قروح ۔
مضر۔
پھیپھٹروں اورچشم کیلئے۔
بدل۔
پوست انار ترش۔
نوٹ۔
صرف بیرونی استعمال کیلئے۔

No comments:

Post a Comment